ملکی اور بین الاقوامی برادری صحافیوں کے قانونی حقوق کے حصول کیلئے آواز بلند کریں۔ پی ایف یو جے
اسلام آباد )پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے حکومت اور عدلیہ کی طرف سے ساتویں ویج بورڈ ایورڈ پر عملدرآمد نہ کروانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ساتواں ویج بورڈ ایوارڈ صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کا قانونی حق ہے جس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ان کی مشکلات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیاہے۔
پی ایف یو جے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود پاکستان کے اندر جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام چل رہا ہے۔
پی ایف یو جے نے اس بات کو بڑی شدومد سے بیان کیا ہے کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت دیئے گئے حق کا حصول میڈیا نمائندگان کا قانونی اور جائز حق ہے مگر اس پر عملدرآمد کروانے کے سلسلہ میں حکومت، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی ہٹ دھرمی سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کو یکم جولائی 2000 سے ہی نافذالعمل ہوجانا چاہیے تھا۔
پی ایف یو جے کہا کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد نہ کر کے میڈیا مالکان نے اپنے چہرے پر بھی بدنما دھبہ لگالیا ہے ۔ کیونکہ وہ دن رات انسانی حقوق کے تحفظ، قانون کی حکمرانی، سماجی رواداری، معاشرتی اور عدلیہ کی آزادی کا راگ آلاپتے نہیں تھکتے مگروہ ان غریب ملازموں اور صحافیوں کو جائز اور قانونی حقوق دینے کیلئے تیار نہیں جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے ان کا کاروبار چلاتے ہیں ۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ اس سارے ڈرامے سے یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے کیونکہ سارے ادارے اپنی بقا کیلئے میڈیا اور عدلیہ کے دست نگر ہیں۔
پی ایف یو جے نے مزید کہا کہ موجودہ ماحول اس بات کی بھی بڑی عمدہ عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا مالکان نے ’’متبرک گائے‘‘ کا درجہ حاصل کر لیا ہے جو عدلیہ کہ پشت پناہی سے ہرقسم کے قانون اور ضابطے سے ماورا خیال کی جاتی ہے اور میڈیا مالکان اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ملازمین کو حقیر معاوضہ پر خون بہانے پر مجبور کررہے ہیں۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ وہ کونسا قانون یا ضابطہ اخلاق ہے جس کے تحت میڈیا مالکان ملازمین کے جائز حقوق، مفادات اور مشاہروں کو ضبط کرنے میں حق بجانب ہیں حالانکہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر میڈیا سے وابستہ افراد کی تنخواہیں اور دوسری مراعات سے متعلقہ قانون پاس کر چکی ہے۔ مگر تین دہائیاں گذرنے کے باوجود عدلیہ صرف اس وجہ سے تمام ضوابط کو بالائے طاق رکھ رہی ہے کہ کہیں اس کا میڈیا مالکان سے ٹکراؤ نہ ہوجائے حالانکہ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا مالکان کواس بات کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جب چاہیں قانون کی دھجیاں اڑادیں اور جب چاہیں غریب ملازموں اور صحافیوں کوان کے جائز اور قانونی حقوق سے محروم کر کے عدالتوں کا مذاق اڑائیں۔
حتیٰ کہ چیف جسٹس آف پاکستان جو انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے معاملات میں خود کار نوٹس لینے میں مکمل اختیاررکھتے ہیں وہ بھی میڈیا مالکان کے ہاتھوں ملازمین اور صحافیوں کے استحصال کا نوٹس لینے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے میڈیا مالکان اس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ وہ صحافیوں اور ملازمین کے اس احتجاج کی بھی مطلق پروا نہیں کرتے جو وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے پچھلے دس سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
یہاں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے میں اپنی آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں حالانکہ یہ بات یقین سے کہی جاتی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں بد عنوانی، قانون کی پامالی اور قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ یو این کے قواعد کے مطابق حکومت پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ وہ علاقائی قوانین پر مکمل عملدرآمد کروائے جس کے تحت آٹھویں ویج ایوارڈ کیلئے بورڈ کی تشکیل اور ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر یکم جولائی 2000 سے عملدرآمد،صحافیوں کیلئے موافق ماحول کی فراہمی،جان ومال اور ملازمت کا تحفظ یقینی ہے۔
اس سلسلہ میں پی ایف یو جے نے تمام ملکی اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کی صحافی برادری کی حمایت میں آواز بلند کریں تاکہ صحافی بھی اپنے جائز قانونی حقوق سے محروم نہ رہیں۔
شمس الاسلام ناز
سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس
فون نمبر 0300-8665523, 032108665523
پی ایف یو جے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود پاکستان کے اندر جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام چل رہا ہے۔
پی ایف یو جے نے اس بات کو بڑی شدومد سے بیان کیا ہے کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت دیئے گئے حق کا حصول میڈیا نمائندگان کا قانونی اور جائز حق ہے مگر اس پر عملدرآمد کروانے کے سلسلہ میں حکومت، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی ہٹ دھرمی سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کو یکم جولائی 2000 سے ہی نافذالعمل ہوجانا چاہیے تھا۔
پی ایف یو جے کہا کہ ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد نہ کر کے میڈیا مالکان نے اپنے چہرے پر بھی بدنما دھبہ لگالیا ہے ۔ کیونکہ وہ دن رات انسانی حقوق کے تحفظ، قانون کی حکمرانی، سماجی رواداری، معاشرتی اور عدلیہ کی آزادی کا راگ آلاپتے نہیں تھکتے مگروہ ان غریب ملازموں اور صحافیوں کو جائز اور قانونی حقوق دینے کیلئے تیار نہیں جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے ان کا کاروبار چلاتے ہیں ۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ اس سارے ڈرامے سے یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے کیونکہ سارے ادارے اپنی بقا کیلئے میڈیا اور عدلیہ کے دست نگر ہیں۔
پی ایف یو جے نے مزید کہا کہ موجودہ ماحول اس بات کی بھی بڑی عمدہ عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا مالکان نے ’’متبرک گائے‘‘ کا درجہ حاصل کر لیا ہے جو عدلیہ کہ پشت پناہی سے ہرقسم کے قانون اور ضابطے سے ماورا خیال کی جاتی ہے اور میڈیا مالکان اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ملازمین کو حقیر معاوضہ پر خون بہانے پر مجبور کررہے ہیں۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ وہ کونسا قانون یا ضابطہ اخلاق ہے جس کے تحت میڈیا مالکان ملازمین کے جائز حقوق، مفادات اور مشاہروں کو ضبط کرنے میں حق بجانب ہیں حالانکہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر میڈیا سے وابستہ افراد کی تنخواہیں اور دوسری مراعات سے متعلقہ قانون پاس کر چکی ہے۔ مگر تین دہائیاں گذرنے کے باوجود عدلیہ صرف اس وجہ سے تمام ضوابط کو بالائے طاق رکھ رہی ہے کہ کہیں اس کا میڈیا مالکان سے ٹکراؤ نہ ہوجائے حالانکہ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا مالکان کواس بات کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جب چاہیں قانون کی دھجیاں اڑادیں اور جب چاہیں غریب ملازموں اور صحافیوں کوان کے جائز اور قانونی حقوق سے محروم کر کے عدالتوں کا مذاق اڑائیں۔
حتیٰ کہ چیف جسٹس آف پاکستان جو انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے معاملات میں خود کار نوٹس لینے میں مکمل اختیاررکھتے ہیں وہ بھی میڈیا مالکان کے ہاتھوں ملازمین اور صحافیوں کے استحصال کا نوٹس لینے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے میڈیا مالکان اس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ وہ صحافیوں اور ملازمین کے اس احتجاج کی بھی مطلق پروا نہیں کرتے جو وہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے پچھلے دس سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
یہاں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے میں اپنی آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں حالانکہ یہ بات یقین سے کہی جاتی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں بد عنوانی، قانون کی پامالی اور قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ یو این کے قواعد کے مطابق حکومت پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ وہ علاقائی قوانین پر مکمل عملدرآمد کروائے جس کے تحت آٹھویں ویج ایوارڈ کیلئے بورڈ کی تشکیل اور ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ پر یکم جولائی 2000 سے عملدرآمد،صحافیوں کیلئے موافق ماحول کی فراہمی،جان ومال اور ملازمت کا تحفظ یقینی ہے۔
اس سلسلہ میں پی ایف یو جے نے تمام ملکی اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کی صحافی برادری کی حمایت میں آواز بلند کریں تاکہ صحافی بھی اپنے جائز قانونی حقوق سے محروم نہ رہیں۔
شمس الاسلام ناز
سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس
فون نمبر 0300-8665523, 032108665523
No comments:
Post a Comment